تلاطم برپا ہے
حوادث ہم سفر اپنے، طلاطم ہم عناں اپنا زمانہ لوٹ سکتا ہے تو لوٹے کارواں اپنا
نسیمِ صبح سے کیا ٹوٹتا خوابِ گراں اپنا کوئی نادان بجلی چھو گئی ہے آشیاں اپنا
ہمیں بھی دیکھ لو آثارِ منزل دیکھنے والو کبھی ہم نے بھی دیکھا تھا غبارِ کارواں اپنا
مزاجِ حُسن پر کیا کیا گزرتا ہے گراں پھر بھی کسی کو آ ہی جاتا ہے خیالِ ناگہاں اپنا
ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا
جمالِ دوست کو پیہم نکھرنا ہے، سنورنا ہے محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا
شاعر: قابل اجمیری
Babita patel
22-Mar-2024 08:43 AM
V nice
Reply
RISHITA
17-Mar-2024 06:04 PM
Nice
Reply
Mohammed urooj khan
16-Mar-2024 03:44 PM
👌🏾👌🏾👌🏾👌🏾
Reply